پاکستانی اور افغان فلم سازوں کی بنائی گئی فلموں کی نمائش
11 دسمبر 2021پاکستان میں قائم جرمن ثقافتی مرکز گوئتھے انسٹیٹیوٹ نے یہ پروگرام 2017 میں شروع کیا تھا۔ اب تک اس پروگرام کے تحت دو درجن سے زیادہ فلمسازوں نے 70 کے قریب فلمیں بنائیں جن میں انسانی حقوق، معاشرتی مسائل خصوصاً خواتین کو درپیش مسائل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو بھی اجاکر کیا گیا۔
گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے اس پروگرام کے تحت بننے والی ان فلموں کی نمائش اب کئی عالمی فیسٹیولز میں ہوچکی ہے جن میں امریکا کے شہر سالٹ لیک سٹی کا سن ڈانس فلم فیسٹول، کوپن ہیگن کا بین الاقوامی ڈاکومینٹری فلم فیسٹول، سوئٹزرلینڈ کا لوکارنوفلم فیسٹول، امریکا کا ساؤتھ ایشین فلم فیسٹول، بھارت کے جے پور انٹرنیشنل فلم فیسٹول جیسے نام شامل ہیں۔ کئی فلمیں نمائش کا حصہ بننے کے ساتھ انعامات کے لیے نامزدگی اور ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں۔
اسکریننگ پروگرام میں کل نو فلمیں پیش کی گئی جو تمام کسی نہ کسی بین الاقوامی نمائش کا حصہ بن چکی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس پروگرام کے سربراہ جرمن فلم میکر ٹل پاسو نے بتایا کہ یہ پروگرام گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے ساتھ فلم میکنگ کے ورکشاپ سے شروع کیا تھا، اس دوران انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان میں سنجیدہ فلم سازی کی تعلیم کا فقدان ہے، اس لیے یہ پروگرام شروع کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس میں وہ نوجوان فلمسازوں کو مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے ساتھ ہی ہر قسم کی تکنیکی مدد بھی کی جاتی ہے تاکہ ان موضوعات پر بھی کام ہوسکے جن سے مقامی اورعلاقئی کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک کے افراد بھی تعلق جوڑ سکیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس پروگرام کی کامیابی سے بہت مطمئن ہیں کیونکہ ان کی فلمیں دنیا کے مشہور فلمی میلوں میں پیش کی جاچکی ہیں اور کچھ نے تو ایوارڈز بھی جیتے ہیں۔
ٹل پاسو کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ تھا، یہ نوجوان ایک مرتبہ اپنا آئیڈیا منظور ہونے کے بعد اطمینان اور آزادی کے ساتھ کام کرتے رہے البتہ سب سے بڑا چیلنج کورونا کی وباء کے دوران، جب تمام ورکشاپس آن لائن کروانے ہوتے تھے، کچھ مشکلات ضرور درپیش آئی تھیں۔
اس پروگرام میں افغانستان کے شامل ہونے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے نوجوان ورکشاپس کے لیے پاکستان آئے اور آئیڈیا منظور ہونے کے بعد واپس جاکر ان پر کام کیا اور دوبارہ پاکستان آکر اس پر ہمارے ساتھ مزید کام کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی اس پروگرام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور تیسرے سیزن کے انعقاد کے لیے ان کے پاس کئی نئے آئیڈیا بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا پروگرام میں ورکشاپس منعقد کروانے اور دیگر بڑھتے ہوئے اخراجات کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اس میں مالی مدد کے لیے آگے آئیں۔
فلم ٹیلنٹ کی مرکزی رابطہ کار زویا احمد نے اس ضمن میں بتایا کہ اس پروگرام کا مقصد نوجوان فلم سازوں کو ایک پلیٹ فارم کے ساتھ انہیں ابتدائی فنڈنگ فراہم کرنا تھا تاکہ ایسے موضوعات پر کام کیا جاسکے جن پر عام طور پر لوگ پیسہ خرچ کرنے اور بات کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
زویا کے مطابق پہلے دو پروگراموں کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ان کا فیصلہ ہے کہ تیسرے حصے کا آغاز بھی جلد ہی کردیا جائے۔
زویا نے مزید بتایا کہ پروگرام شروع کرنے کا ارادہ کرنے بعد ہم اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اطلاع دیتے ہیں۔ اس پروگرام میں زیادہ تر نوجوان فلم میکر ہی درخواست بھیجتے ہیں جن میں کچھ ایسے بھی تھے جن کا فلم میکنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن ان کی کہانی کا خیال اتنا مضبوط اور اچھوتا تھا اس لیے ان کو بھی شامل کرلیا گیا۔ ان آئیڈیاز کو جمع کرنے کے بعد پاکستان اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے ماہرین پر مشتمل ایک جیوری تشکیل دی جاتی ہے جو حتمی فیصلہ کرتی ہے کہ کن خاکوں پر مزید کام کیا جانا چاہیے۔
فلم ٹیلنٹ پروگرام میں شامل نوجوان فلم ساز راہول اعجاز جن کی فلم 'اے ٹرین کراسس دی ڈیزرٹ' دنیا کے چھہ ممالک کے دس فیسٹولز میں پیش کی جاچکی ہے کا کہنا تھا کہ وہ دو سال تک اس پروگرام سے منسلک رہے ہیں اور آج ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد ایسا لگ رہا کہ انہوں نے کوئی ڈگری حاصل کرلی جہاں سے وہ بہت کچھ سیکھ کر نکلے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ اپنے طور پر مزید فلمیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
راہول کا نام 2019 میں پاکستان اور افغانستان سے شامل کیے جانے والے 15 فلم سازوں میں شامل کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے فلم سازوں کی مدد کے لیے اس سے اچھا پروگرام ابھی تک نہیں دیکھا جہاں آپ نہ صرف آزادی کے ساتھ اپنے آئیڈیاز پر کام کرسکتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ان کو حتمی شکل دینے کے لیے مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔