امریکی، مغربی دباؤ: عمران خان کے بیان پر کئی حلقوں میں بحث
عبدالستار، اسلام آباد
30 جون 2021
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے امریکی اور مغربی دباؤ کے تذکرے پر ملک میں خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ چند ناقدین کے خیال میں وزیر اعظم کو کھل کر اس طرح کا کوئی بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔
اشتہار
ان ناقدین کے مطابق اس طرح کی کھلی بیان بازی سے پاکستان کے لیے ممکنہ طور پر پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک چینی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اسلام آباد پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے لیے چین اور مغرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ ان کے بقول ساتھ ہی پاکستان پر یہ دباؤ بھی ہے کہ وہ چین کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلے۔
پاکستانی وزیر اعظم کا اس انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ خطے میں بڑی طاقتوں کے درمیان مخاصمت جاری ہے لیکن اسلام آباد پر یہ دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں تبدیلی لائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
دباؤ کی نوعیت
پاکستانی سوشل میڈیا اور مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں اس انٹرویو کے خوب چرچے ہیں اور ملک بھر کے کئی حلقوں میں اس پر بحث جاری ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ یہ دباؤ مختلف نوعیت کے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر جو بائیڈن نے چین کو ایک طرح سے امریکا کا دشمن قرار دے دیا ہے اور امریکا چین کی معاشی ترقی روکنا چاہتا ہے۔ لہٰذا ہم پر دباؤ ہے کہ ہم سی پیک منصوبہ ختم کر دیں، چین کو بحر ہند تک راستہ نہ دیں، جو ہم نے گوادر کی شکل میں دیا ہے۔ واشنگٹن کو فوجی اڈے دیں۔ بھارت کے تسلط کو کشمیر میں تسلیم کریں اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی تسلیم کر لیں۔‘‘
'امریکا نے پاکستان کو صرف استعمال ہی کیا ہے‘
اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کو صرف استعمال ہی کیا ہے۔ ان کے بقول، ''ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا۔ اب امریکا عبدالغنی برادر سے بات چیت کر کے جا رہا ہے اور پاکستان کو ایسے ہی استعمال کر کے چھوڑ دیا ہے۔ وہ خطے میں بھارت کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ نئی دہلی کو نکیل ڈالنے کے لیے ہمیں اسٹریٹیجک پارٹنر کی ضرورت ہے، جو امریکا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہمارے چین سے تعلقات یوں ہی رہیں گے اور ان پر کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
عمران خان کی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اس وقت نیو یارک میں موجود ہیں۔ اس موقع پر ان کی دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں جاری ہیں۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے ملاقات
عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے بڑھتے اسلامو فوبیا پر گفتگو کی۔ عمران خان نے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے حملے کے بعد ملکی وزیر اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عمران خان نے جیسنڈرا آرڈرن کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق پاکستانی تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
رجب طیب ایردوآن سے ملاقات
عمران خان نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملاقات کی۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا بھی اعادہ کیا۔ صدر ایردوآن نے جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی موقف کی تائید کی۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کا اعادہ
پاکستانی وزیر اعظم نے ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی۔ عمران خان نے ایران کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں ایران کے ساتھ تعاون بڑھانے پر زور دیا۔ عمران خان نے کشمیر کے معاملے پر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کی جانب سے پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں نے دو طرفہ معاہدوں پر پیش رفت کو بڑھانے کا اعادہ کیا۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے
پاکستانی وزیر اعظم نے اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے سے بھی ملے۔ دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ اور علاقائی معاملات پر گفتگو کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر اعظم نے اطالوی وزیر اعظم کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
جنرل اسمبلی کا 74واں سیشن
پاکستانی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں سیشن میں پاکستانی وفد کی سربراہی کی۔
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood
6 تصاویر1 | 6
'بیان میں حقیقت لیکن انداز نامناسب‘
تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے لیکن سفارتی امور میں اس طرح بے باک ہوکر بولنا مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکا کی ایک سامراجی انا ہے، جو اس طرح کے بیانات سے مجروح ہوتی ہے۔ عمران خان کئی معاملات میں ہوم ورک نہیں کرتے اور بغیر تیاری کے ہی مختلف امور پر رائے دینے لگتے ہیں۔ تاہم سفارتی معاملات میں بہت سی پیچیدگیا ں ہوتی ہیں اور بات یوں نہیں کی جاتی بلکہ دفتر خارجہ یا کسی اور ذریعے سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں اور ان کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔‘‘
امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک طرف کا ہو جائے۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
انہوں نے کہا، ''امریکا کی طرف تو ہم بالکل نہیں جا سکتے کیونکہ اس نے نہ ماضی میں اور نہ گزشتہ بیس برسوں میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ ہی کیا۔ پاکستان کو غیر نیٹو اتحادی قرار دیا لیکن جوہری ڈیل بھارت سے کی۔ اب وہ ہمیں چین کے خلاف کرنا چاہتا ہے اور ہم یہی بات واضح بھی کر چکے ہیں، جس کا نتیجہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ذریعے ہم پر دباؤ کی صورت میں نکلے گا۔''
اشتہار
پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ
پاکستانی سینیٹ کی ایک کیمٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوہزار بارہ کی ایک کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں پاک امریکا تعلقات استوار کرے۔ اس کمیٹی نے یہ سفارش کی تھی کہ امریکا سے کوئی زبانی معاہدہ نہ کیا جائے، پاکستان میں امریکی فوجیوں کی کوئی زمینی موجودگی نہ ہو اور نہ ہی کوئی خفیہ یا اعلانیہ آپریشن امریکا کے ساتھ مل کر کیا جائے۔ اس کمیٹی نے مزید کہا تھا کہ امریکا کو کوئی فوجی اڈے بھی نہ دیے جائیں۔
جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پرانی ہے، ''لیکن اس میں رہنما اصول ہیں، جنہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس میں کئی ایسے نکات بھی ہیں، جن کا اب پاک امریکا تعلقات سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔‘‘
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
'چین سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ بلند و بانگ دعووں کے باوجود پاکستان کو امریکی مطالبات ماننا پڑیں گے کیونکہ ملک کی خستہ مالی صورت حال کے پیش نظر اسلام آباد کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین سے ہاتھ کھینچنا پڑیں گے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا، ''وزیر اعظم عمران خان کا بیان صرف دکھاوا ہے، جس کا مقصد چین سے کچھ مالی مدد لینا ہے۔ لیکن آخر میں انہیں امریکا ہی کی ماننا پڑے گی۔ چین سے پاکستان نے پہلے ہی ہاتھ کھینچا ہوا ہے اور سی پیک پر کام رکا ہوا ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہی ہاتھ مزید کھینچنا پڑے گا۔‘‘
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔