پاکستان کے وزیر اطلاعات و مواصلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان میں بدلتی صورتحال کو دیکھ رہا ہے۔ ان کے بقول افغانستان کی بگڑتی صورتحال کا اثر کسی صورت میں بھی پاکستان پر نہیں پڑنے دیں گے۔
اشتہار
فواد چوہدری نے اس حوالے سے اپنی ٹویٹ میں مزید لکھا کہ پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ کابل میں ایک پر امن اور فریقین کے اتفاق رائے سے حکومت قائم ہو لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو بھی پاکستان میں اس کے اثرات کو نہیں آنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا،''ہماری افغان پالیسی پاکستان کے مفاد میں ہے۔''
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ پاکستان امن میں حصہ دار ہو گا لیکن جنگ میں نہیں۔ فواد چوہدری نے کہا،''پاکستان کی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور امید ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، سیاسی پارلیمانی قیادت عدم مداخلت کے اصول پر متفق ہے۔''
وزیر اطلاعات کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے ساتھ ساتھ خطے کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ افغان طالبان دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے پچاسی فیصد حصے کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ کابل حکومت کی پوزیشن کمزور تر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں کچھ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ طالبان کی طاقت ور حیثیت سے خطے میں شدت پسندی کو فروغ مل سکتا ہے۔
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
9 تصاویر1 | 9
کچھ روز قبل پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر پرائے قومی سلامتی معید یوسف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان میں صورتحال 'انتہائی خراب'ہے اور صورتحال پاکستان کے قابو میں نہیں ہے۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ اس گروہ کے عسکریت پسند پاکستان میں مہاجرین کا روپ دھار کر داخل ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل بابر افتخار کی جانب سے ابھی ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں سہولت کار ہے نہ کہ ضامن۔