پاکستانی ساحلوں میں سبز کچھوؤں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ
12 دسمبر 2021
پاکستانی وائلڈ لائف حکام کی جانب سے اس سال سبز کچھوؤں کے نو سو بچوں کو ساحل سے سمندر تک پہنچایا گیا۔ ماحولیاتی ماہرین اسے کچھوؤں کی بقاء میں اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
کورونا وبا کے باعث دنیا بھر کے سمندری ساحلوں پر انسانوں کی نقل و حرکت کافی محدود ہو گئی تھی۔ کچھوؤں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اب وہ بڑی تعداد میں ساحلوں میں آرہے ہیں اور اس طرح ان کی افزائش نسل بھی ہو رہی ہے۔
ایک مادہ سمندر میں واپس جانے سے پہلے ساحل کی ریت میں ایک سو یا اس سے زیادہ انڈے دبا دیتی ہے۔
ستمبر سے نومبر افزائش کا موسم
کراچی کے ساحلوں پر سبز نسل کے کچھوؤں کی تعداد پندرہ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ سندھ وائلڈ لائف کے مطابق سن 2019 میں یہ تعداد آٹھ سے ساڑھے آٹھ ہزار کے درمیان تھی۔ اگرچہ پاکستان میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔ ماہرین کو اب بھی توقع ہے کہ جانوروں کی بڑی تعداد ساحل کا رخ کرے گی۔
سبز کچھوؤں کا شمار بڑے حجم والے سمندری کچھوؤں میں ہوتا ہے۔ ان سبزی خور سبز کچھوؤں کا وزن 90 کلوگرام سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی ماحول دوست گڑیا
03:31
وہ 80 سے زیادہ ممالک میں اپنی پناہ گاہیں بناتے ہیں اور گرم موسم والے قریب ڈیڑھ سو علاقوں میں آباد ہیں۔ سی ٹرٹلز کنزرویشن گروپ کے مطابق دنیا بھر میں انڈے دینے والی مادہ کچھوؤں کی تعداد پچاسی سے نوے ہزار ہے۔
سینکڑوں کچھوؤں کے بچوں کو سمندر پہنچا دیا گیا
کراچی کا موسم اگلے سال جنوری تک انڈے دینے کے لیے سازگار ہو سکتا ہے اسی لیے وائلڈ لائف حکام ساحلوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ سندھ وائلڈ لائف کے اشفاق علی میمن کا کہنا ہے،''ابھی کچھوؤں کے پاس انڈے دینے کے لیے کافی وقت ہے۔ اس سیزن میں یہاں کچھوؤں کی بہت بڑے تعداد آئی۔ تین ماہ کے عرصے میں ہم نے چھ ہزار انڈوں کو محفوظ کیا ہے۔'' اشفاق میمن کے مطابق جیسے ہی مادہ انڈے دینے کے بعد اپنی جگہ کو چھوڑتی ہے، ان کا سٹاف فوری طور پر ریت میں دبے انڈے نکال لیتا ہے اور انہیں ایک میٹر گہرے گڑھے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ چالیس سے پینتالیس دن بعد انڈوں سے کچھوؤوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان بچوں کو پھر سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سن 1970 سے اب سندھ ٹرٹل یونٹ سمندر میں کچھوے کے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد بچوں کو چھوڑ چکی ہے۔ میمن کے مطابق صرف اس سیزن میں ہی نو سو بچوں کو سمندر تک پہنچایا گیا۔ ماہرین کی رائے میں ماضی میں سمندری کچھوؤں کو ان کے گوشت، چربی اور ان کے انڈوں کے لیے شکار کیا جاتا تھا لیکن اب حالیہ کچھ برسوں میں آلودگی اور زمین کی کمی بھی ان کی بقاء کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔
ب ج، ع ا (روئٹرز)
ماحولیاتی تبدیلیاں پہاڑوں کے لیے بھی خطرے کا باعث
گلوبل وارمنگ نے پہاڑوں کے فطرتی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی ہے۔ ان تبدیلیوں سے پانی کے بہاؤ سے لے کر زراعت، جنگلاتی حیات اور سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دنیا کے پہاڑ جہاں انتہائی سخت ہیں وہاں وہ بہت نازک بھی ہیں۔ نشیبی علاقوں میں ان کے اثرات بے بہا ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ان پہاڑوں نے گہرے اثرات لیے ہیں۔ پہاڑوں پر بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور وہاں کا قدرتی ماحول تبدیل ہونے لگا ہے۔ برف اور گلیشیئر نے غائب ہونا شروع کر دیا ہے اور اس باعث زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہے۔
تصویر: Photoshot/picture alliance
برف کا پگھلاؤ
اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رہا اور ضرر رساں گیسوں کا اخراج موجودہ مقدار کے مطابق فضا میں منتقل ہوتا رہا تو رواں صدی کے اختتام تک پہاڑوں اور دوسرے علاقوں میں اسی فیصد برف کم ہو سکتی ہے۔ گلیشیئرز کے حجم بھی کم ہونے لگے ہیں۔ ایسی منفی صورت حال یورپی پہاڑی سلسلہ الپس کے علاوہ دوسرے براعظموں کے پہاڑوں پر بھی دکھائی دے رہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں نے زمین کے آبی نظام کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ پہلے گلیشیئر سے پانی دریاؤں تک پہپنچتا تھا لیکن اب ان کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دریا میں پانی کا بہاؤ بھی زیادہ ہو چکا ہے۔ کئی پہاڑی سلسلوں میں گلیشیئرز کی جسامت برف پگھلنے سے سکٹر گئی ہے، جیسا کہ پیرو کے پہاڑوں کی صورت حال ہے۔
تصویر: Wigbert Röth/imageBROKER/picture alliance
بائیوڈائیورسٹی: تبدیل ہوتا نشو و نما کا ماحول
ماحولیاتی تبدیلیوں نے پہاڑوں کی جنگلاتی حیات میں جانوروں، پرندوں اور جڑی بوٹیوں کی افزائش کے قدرتی ماحول کو بھی بہت حد تک تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ جنگل بردگی نے پہاڑوں کی ترائیوں کے جنگلات میں کمی کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ان علاقوں کے جنگلی جانوروں نے بلندی کا رخ کر لیا ہے اور یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے اور پہاڑوں کی مستقل منجمد مقامات سے برف کے کم ہونے سے پہاڑی درے اور راستے غیر مستحکم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے برفانی تودوں کے گرنے، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ مغربی امریکی پہاڑوں میں برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے ان میں موجود بھاری دھاتوں کا بھی اخراج ہونے لگا ہے۔ یہ زمین کی حیات کے لیے شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دنیا کی قریب دس فیصد آبادی پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے۔ ان لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے معاشی مشکلات کا جہاں سامنا ہے اب وہاں قدرتی آفات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پہاڑوں کے جمالیاتی، روحانی اور ثقافتی پہلوؤں کو بھی مجموعی طور پر تنزلی کا سامنا ہے۔ اب نیپال کی منانگی کمیونٹی کو لیں، جن کی شناخت گلیشیئرز سے ہے، اِن کے پگھلنے سے اُن کے حیاتیاتی ماحول کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پہاڑٰی علاقوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے سے وہاں کی معیشت کو شدید منفی صورت حال کا سامنا ہے۔ ماحول کے گرم ہونے سے پہاڑوں کی سیاحت اور پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بلند علاقوں میں کی جانے والی زراعت بھی زبوں حالی کی شکار ہو گئی ہے۔ پہاڑوں میں قائم بنیادی ڈھانچے جیسا کہ ریلوے ٹریک، بجلی کے کھمبوں، پانی کی پائپ لائنوں اور عمارتوں کو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات کا سامنا ہو گیا ہے۔
تصویر: Rodrigo Abd/picture alliance
سرمائی سیاحت
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم برف گرنے سے پہاڑوں پر برف کا لطف اٹھانے کا سلسلہ بھی متاثر ہو چکا ہے۔ اسکیئنگ کے لیے برف کم ہو گئی ہے۔ اسکیئنگ کے لیے قائم پہاڑی تفریحی مقامات پر مصنوعی برف کا استعمال کیا جانے لگا ہے جو ماحول کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ بولیویا کی مثال لیں، جہاں گزشتہ پچاس برسوں میں نصف گلیشیئرز پانی بن چکے ہیں۔
گلیشیئرز کے سکڑنے سے دریاؤں میں پانی کم ہو گیا ہے اور اس باعث وادیوں میں شادابی و ہریالی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان علاقوں کے کسانوں کو کاشتکاری سے کم پیداوار حاصل ہونے لگی ہے۔ نیپال میں کسانوں کو خشک کھیتوں کا سامنا ہے۔ ان کے لیے آلو کی کاشت مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دوسرے ایسے ہی پہاڑی ترائیوں کے کسانوں نے گرمائی موسم کی فصلوں کو کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔