پاکستان:ماحولیاتی نظام کو لاحق خطرات کے باعث تنازعات کا خدشہ
7 اکتوبر 2021
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تیس ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے ماحولیاتی نطاموں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان ممالک میں ماحولیاتی نقصانات مقامی تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں جو بڑے پیمانے پر لوگوں کی مہاجرت کا سبب بن سکتے ہیں۔
اشتہار
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کی جانب سے 'ایکولوجیکل تھریٹ رپورٹ' میں دنیا کے 178ممالک کا جائزہ لیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کے کون سے ممالک اور خطے ماحولیاتی نظاموں کو لاحق خطرات کے باعث تنازعات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ خوراک اور پانی سے متعلق خطرات، آبادی میں اضافہ، درجہ حرارت میں تبدیلیاں، اور قدرتی آفات سے متعلق ڈیٹا کا مقامی اقتصادی صورتحال ، حکومت، کاروباری ماحول اور انسانی حقوق کے ڈیٹا کے ساتھ موازنہ کر کے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ماحول کو پہنچنے والے نقصانات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو دنیا کے تین ایسے خطے ہیں جہاں تنازعات جنم لیں گے اور بہت بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔
سب سے زیادہ خطرے سے دوچار خطے
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر سیرج اسٹروبانٹس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس رپورٹ میں ایسے تیس ممالک کی نشاندہی کی گئی ہےجہاں کے ماحولیاتی نظاموں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وہاں مالی بدعنوانیاں، کمزور ادارے، کاروبار کرنے کا ناموافق ماحول اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل عام ہیں۔
معاشرے کی تنزلی کے خطرے سے دوچار تین خطے یہ ہیں:
افریقہ میں موریتانیا سے صومالیہ
افریقہ میں ہی انگولا سے ماڈاگاسکر
اور مشرق وسطیٰ اور ایشیا کا خطے جن میں شام سے لے کر پاکستان تک شامل ہیں
ان ممالک میں سب سے زیادہ خطراتت سے دوچار ممالک میں ایران، موزمبیق، ماڈاگاسکر، پاکستان اور کینیا ہیں۔ اس وقت تو یہ ممالک بظاہر مستحکم ہیں لیکن ان ممالک کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرہ ہے۔ یہاں امن و امان کی صورتحال بھی کمزور ہے جس کے باعث انہیں مستقبل میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
شدید خونریز موسم، کرہ ارض کے لیے دھچکا
براعظم یورپ سے لے کر امریکا اور ایشیا و افریقہ کے کئی ممالک میں شدید موسموں کی وجہ سے قدرتی آفات خبروں کی سرخیوں میں ہیں۔ کیا یہ سب ماحولیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں۔
تصویر: Noah Berger/AP Photo/picture alliance
یورپ میں شدید سیلاب
یورپ کی جدید تاریخ میں غیرمعمولی سیلاب کی وجہ دو ماہ سے ہونے والا شدید سیلابی سلسلہ بنا۔ یوں بالخصوص مغربی یورپ میں شدید تباہی ہوئی اور صرف جرمنی اور بیلجیم میں کم از کم دو سو نو افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر لاکھوں یورو خرچ ہوں گے۔
تصویر: Thomas Lohnes/Getty Images
بارش کا غیر معمولی سلسلہ
حالیہ ہفتوں میں بھارت اور چین میں بھی غیر معمولی سیلاب آئے۔ چین کے صوبہ ہینان کے شہر ژانگژو میں سیلابی ریلے انڈر گراؤنڈ ٹرین سب وے میں داخل ہو گئے، جہاں درجنوں مارے بھی گئے۔ موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کلائمیٹ چینج کی وجہ سے مستقبل میں زیادہ شدید بارشوں کا خدشہ ہے۔ زیادہ گرم موسم پانی کی بڑی مقدار کو بخارات بنائے گا، جو بادل بن کر برسیں گے۔
تصویر: AFP/Getty Images
امریکا اور کینیڈا میں ریکارڈ گرمی
جون کے اواخر میں کینیڈا اور امریکا میں بھی شدید گرمی پڑی۔ بالخصوص کینیڈین صوبے برٹش کولمبیا میں ریکارڈ گرم درجہ حرارت بھی نوٹ کیا گیا جبکہ گرم موسم کی وجہ سے کئی اموات بھی ہوئیں۔ اسی باعث دونوں ممالک میں جنگلاتی آگ بھی بھڑکی، جو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا باعث بنی۔
تصویر: Ted S. Warren/AP/picture alliance
جنگلاتی آگ سے تباہی
گرمی کی لہر شاید ختم ہونے والی ہے لیکن انتہائی خشک موسم سے جنگلاتی آگ بھڑکنے کا خطرہ نہیں ٹلا۔ امریکی ریاست اوریگن میں بھڑکی جنگلاتی آگ کی وجہ سے دو ہفتوں میں ہی ایک بڑا رقبہ راکھ ہو گیا۔ یہ آگ اتنی شدید ہے کہ اس کا دھواں نیو یارک شہر تک پہنچ رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق موسموں میں یہ شدت انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔
تصویر: National Wildfire Coordinating Group/Inciweb/ZUMA Wire/picture alliance
ایمیزون میں بگڑتی صورتحال
برازیل کا وسطی اور جنوبی حصہ شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ گزشتہ سو برس بعد ان علاقوں میں یہ صورتحال دیکھی جا رہی ہے۔ یوں جنگلاتی آگ بھڑکنے کے علاوہ ایمیزون کے جنگلات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Andre Penner/AP Photo/picture alliance
فاقہ کشی کے دہانے پر
مڈغاسکر میں گزشتہ کئی برسوں کی خشک سالی کے باعث 1.14 ملین نفوس فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ اس افریقی ملک میں نا تو کوئی قدرتی آفت آئی اور نا ہی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تو کوئی سیاسی تنازعہ بھی پیدا نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود وہاں قحط سالی کا خطرہ ہے، جس کی وجہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Laetitia Bezain/AP photo/picture alliance
قدرتی آفات سے مہاجرت
گزشتہ برس قدرتی آفات اور مسلح تنازعوں سے اپنے ہی ملکوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد پچپن ملین رہی، جو گزشتہ دہائی کا ایک نیا ریکارڈ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ چھیبس ملین افراد غیر ممالک مہاجرت پر بھی مجبور ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اپنے ہی ممالک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تین چوتھائی شدید موسموں کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی۔
تصویر: Fabeha Monir/DW
7 تصاویر1 | 7
اس کے علاوہ شام، افغانستان، عراق، یمن، سنٹرل افریقین ریپبلک پہلے ہی تنازعات کا شکار ہیں اور انہیں بھی ماحولیاتی خطرات کا سامنا ہے۔ ان ممالک میں وسائل کی کمی تنازعات کو جنم دے رہی ہے اور تنازعات وسائل کی مزید کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی نظاموں کے خطرے سے دوچار ممالک میں مہاجرت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ گزشتہ سال افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے پچاس ملین افراد تشدد اور تنازعات کے باعث ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
اشتہار
مسائل کا حل کیا ہے؟
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔ رپورٹ میں حکومتوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کو تجویز دی گئی ہے کہ ایسے نظام تشکیل کیے جائیں جن میں صحت، خوراک، پانی، مہاجرین کی امداد، قرضے کی سہولیات، ذراعت وغیرہ کو خاص اہمیت دی جائے۔
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے بانی اور چیئرمین سٹیو کیلیلی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' اگر مختلف ایجنسیوں کو چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح لیکن متحد کر دیا جائے اور وہ سب ساتھ مل کرکام کریں تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ بہتر انداز میں مسائل کو حل کر پائیں گی۔''