1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مافیا‘ نے میڈیا ہاؤسز کو اپنے ساتھ ملا لیا، عمران خان

عبدالستار، اسلام آباد
21 اپریل 2022

تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ میڈیا ان کا بلیک آؤٹ کر رہا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کیوں کہ ’مافیا‘ نے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔

Pakistan Peschawar
تصویر: Faridullah Khan/DW

ان کے اس دعوے پرصحافتی تنظیموں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے جبکہ سن کی سیاسی جماعت، پاکستان تحریک انصاف، عمران خان کے اس بیان کا دفاع کرتی نظر آرہی ہے۔

واضح رہے ٹویٹر اسپیس میں عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے اپنے پارٹی کارکنان اور عام لوگوں سے کہا کہ 95 فیصد میڈیا ان کی حکومت اور طرز سیاست کے خلاف ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے دور حکومت میں میڈیا کو بہت آزادی حاصل تھی۔ ان کی حکومت کو تنقید اور پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا نے جعلی خبریں بھی پھیلائیں۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ تین مہینے پہلے انہیں پتہ چلا کہ کچھ صحافی اور اینکرز کو' ہمارے خلاف مہم چلانے کے لیے باہر سے پیشکش ہو رہی ہیں‘۔

عمران خان کے ان دعووں پر صحافتی تنظیموں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے عمران خان کے ان دعووں کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور کہا کہ عمران خان کو ایسے صحافیوں کے نام ظاہر کرنا چاہیے تاکہ پی ایف یو جے خود ان کے خلاف کوئی ایکشن لے سکے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے اپنے مشترکہ بیان میں عمران خان کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ماضی میں بھی ایک صحافی پر 35 پنکچرز کا الزام لگایا تھا اور بعد میں اسے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ سیاسی بیانات تھے۔ صحافتی تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس طرح صحافیوں کے خلاف سرعام نفرت پھیلانے سے ان کی زندگیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ شہزادہ ذوالفقار اور ناصر زیدی کے مطابق  اگرعمران خان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ عدالت میں پیش کریں لیکن اگر صحافی کسی ملک کے سفارت کار سے ملتے ہیں تو اس بنیاد پر ان کو ایجنٹ نہیں کہا جا سکتا یا ان کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کسی حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستانی سفارتکار بھی دوسرے ممالک میں صحافیوں سے ملتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسرے ممالک کے صحافیوں کے ساتھ مل کر وہاں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’پی ٹی آئی کا بلیک آؤٹ‘

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ مین سٹریم میڈیا پی ٹی آئی کے جلسوں اور جلوسوں کو وہ کوریج نہیں دے رہا جو اسے دی جانی چاہیے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے خصوصا پی ٹی آئی کے جلسوں کو کوئی خاص توجہ نہیں دی لیکن پرائیویٹ میڈیا پی ٹی آئی کو مناسب کوریج دے رہا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا پارٹی کو بہتر کوریج نہیں دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے یہ بات صحیح ہے کہ پارٹی کا بلیک آؤٹ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ہم بلیک آؤٹ کی بات کرتے ہیں تو لوگ عمران خان کا موازنہ نواز شریف سے کرتے ہیں۔ نواز شریف آرمی جرنیلوں کے نام لے کران پر الزام لگا رہے تھے جب کہ خان صاحب نے اپنے کارکنان کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ فوج کے خلاف کوئی بیان نہ دیا جائے کیونکہ یہ ہماری فوج ہے۔‘‘

محمد اقبال آفریدی کے بقول نواز شریف کی مثال دے کر پی ٹی آئی کا بلیک آؤٹ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ''اس سے عوام میں یہ تاثر جائے گا کے میڈیا بھی اس سازش کا حصہ ہے جس سازش کے تحت پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کیا گیا ہے۔‘‘

’بھرپور کوریج مل رہی ہے‘

تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ انہیں مناسب کوریج نہیں مل رہی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں میڈیا کا خوب استعمال کیا۔ انہوں نے متعدد بار قوم سے خطاب کیا اور اس کے علاوہ جلسے جلوسوں میں بھی ان کو بھرپور کوریج ملتی تھی اور اس وقت بھی میڈیا عمران خان کے جلسے جلوسوں کو بھرپور کوریج دے رہا ہے۔ کراچی اور پشاور کے جلسوں کو بھرپور کوریج دی گئی اور آج پی ٹی آئی کی پریس کانفرنس بھی لائیو دکھائی گئی۔‘‘

پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے

01:28

This browser does not support the video element.

’شکوہ جائز ہے‘

تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مرزا مسعود بیگ کا کہنا ہے کہ عمران خان کا شکوہ بالکل جائز ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ عمران خان کا بیانیہ دن بدن مقبول ہورہا ہے اور جب بیانیہ دن بدن مقبول ہوگا تو یقینا لوگ بھی جلسوں میں آئیں گے۔ ان کا پشاور کا جلسہ بھی بہت بڑا تھا اور کراچی کا جلسہ بھی بہت بڑا تھا اور کل جو انہوں نے ٹویٹر پر خطاب کیا اس میں بھی لاکھوں لوگوں نے شرکت کی اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کا مقبولیت کا گراف اوپر جا رہا ہے۔ لیکن اگر کوئی عوام کو اس کے برعکس چیزیں دکھائے تو پھر وہ معروضی حقائق نہیں بتا رہا اور اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔‘‘

غیر جانبدار کمیشن کے قیام کی تجویز

مرزا مسعود بیگ کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ملک میں ایک آزاد کمیشن ہونا چاہیے جس میں غیر جانبدار صحافیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لوگ ہونا چاہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ استحقاق ہونا چاہیے کہ اگر وہ سمجھتی ہے کہ اس کو مناسب کوریج نہیں دی گئی تو وہ اس ادارے سے رابطہ کرے اور اپنی شکایات درج کرائے۔  ''ہر سیاسی جماعت کو مناسب کوریج دینا اس لیے ضروری ہے کہ ایسی کوریج کی بنیاد پر لوگوں کا نقطہ نظر بنتا ہے اور وہ انتخابات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ انتخابات جمہوریت کا ایک بہت اہم عنصر ہے تو اگر تمام سیاسی جماعتوں کو مناسب کوریج نہیں دی جائے گی تو اس سے نہ صرف صحافت متاثر ہو گی بلکہ ملک میں جمہوری اقدار بھی متاثر ہوگی۔‘‘

پاکستان: شہباز حکومت کی اکثریت پر پی ٹی آئی کے سوالات

پاکستان کی نئی کابینہ نے حلف اٹھا لیا

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں