1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہباز گل پر تشدد کی خبروں پر کئی حلقوں میں تشویش

17 اگست 2022

سابق وزیراعظم عمران خان کے معتمد خاص شہباز گل پر تشدد کی خبروں پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق تشدد کو مجرمانہ عمل قرار دینے کے لیے موثر قانون سازی کی جانا چاہیے۔

تصویر: PPI/Zumapress/picture alliance

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کو تشدد کے حوالے سے تمام بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق بھی کرنی چاہیے تاکہ اصلاح کی راہ ہموار ہو سکے۔

دعوے اور خبریں

پاکستان تحریک انصاف کچھ دنوں سے یہ دعوے کر رہی ہے کہ شہباز گل پر تشدد کیا گیا اور ان سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے تو یہاں تک دعویٰ کیا کہ شہباز گل کو برہنہ کیا گیا۔ تاہم پی ٹی آئی سے ہی تعلق رکھنے والے پنجاب کے وزیر ہاشم ڈوگر نے تشدد کی ان خبروں کو غلط قرار دیا ہے جبکہ حکومتی حلقے بھی ان خبروں اور دعوؤں کی سختی سے تردید کر رہے ہیں۔

اس طرح کے دعوے صرف تحریک انصاف کی ہی طرف سے نہیں کیے جا رہے بلکہ کچھ غیر جانبدار صحافی اور تجزیہ نگار بھی تشدد کے ان دعوؤں کی تصدیق کررہے ہیں۔ معروف صحافی حامد میر نے بھی اپنے ایک پروگرام میں پی ایم ایل این کے رہمنا جاوید لطیف کی موجودگی میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ ان پر تشدد ایسی جگہ پر ہوا ہے کہ جس کو نہ وہ دکھا سکتے ہیں اور نہ بتا سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کو تشویش

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر ٹارچر سے متعلق بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی توثیق کرنی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' شہباز گل کے حوالے سے تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔ اس پرہمیں بہت تشویش ہے۔ ہم نے سب سے پہلے ایسے کسی بھی اقدام کی سخت مذمت کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد کے اس کلچر کو ختم ہونا چاہیے اور زیر حراست ملزم پر ٹارچر نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ وہ نہ صرف پاکستان کے قوانین کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘

ٹارچر کے حوالے سے سیاست دانوں نے سیکھا

 اسد بٹ کے مطابق یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔  ''زرداری صاحب پر بھی ٹارچر ہوا تھا اور دوسرے سیاستدانوں پر بھی ہوا لیکن اس کے باوجود بھی سیاسی حکومتیں اپنے مخالفین کو اس طرح ٹارچر  کرتی ہیں اور یہ بھول جاتی ہیں کہ  جب وہ اقتدار سے باہر ہوگئیں تو ان کی مخالف جماعتیں بھی ایسا ہی کریں گی۔‘‘

انکوائری کا مطالبہ

تحریک انصاف کے رہنما اس مبینہ تشدد کے حوالے سے انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسد بٹ اس مطالبے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسد بٹ کا کہنا تھا حالانکہ تحریک انصاف اس حوالے سے متضاد دعوے کررہی ہے لیکن پھر بھی ان خبروں کی تفتیش ہونا چاہیے کہ ایک سیاست دان کو برہنہ کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ ''انکوائری کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے۔‘‘

شہباز گل کی گرفتاری: ممکنہ سیاسی نتائج کیا کیا، بحث جاری

ٹارچر کے حوالے سے قوانین

پاکستان میں ایسا قانون موجود نہیں ہے جو تشدد کو واضح طور پر مجرمانہ عمل قرار دے اور نہ ہی ایسا قانون ہے جو یہ واضح کرے کہ تشدد ہے کیا؟ اس حوالے سے پاکستانی سینیٹ میں بل منظور کیا جا چکا ہے لیکن اس بل کو ابھی تک قومی اسمبلی سے منظور نہیں کیا گیا۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان اور انسانی حقوق کے کارکن کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ میں تشدد کے حوالے سے شق موجود ہے لیکن اس پر بھی سختی سے عملدرآمد نہیں ہوتا کیونکہ عموما شہریوں پر ٹارچر کرنے میں طاقتور لوگ ملوث ہوتے ہیں جن کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 331 کے مطابق اگر کوئی بھی شخص یا پولیس والا کسی دوسرے شہری کو حراست میں لے لیتا ہے اور اس پر ٹارچر کرتا ہے اور ٹارچر کے ذریعے اقبالی یا اعترافی  بیان حاصل کرتا ہے، تو قانون کے مطابق اس کی سزا دس سال ہے۔ یعنی اگر کوئی پولیس والا کسی پر تشدد یا ٹارچر کے ذریعے کوئی اعتراف جرم کراتا  ہے، یا کسی بھی مقصد کے لیے ٹارچر کرتا ہے، تو قانون کے مطابق اسے 10 سال کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘

انعام الرحیم کے مطابق پولیس رولز میں بھی اس حوالے سے ضابطے موجود ہیں۔ '' لیکن ان قوانین پر سختی سے عمل نہیں ہوتا کیونکہ نہ ہی سیاستدان یہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی طاقت ور حلقے یہ چاہتے ہیں کہ تشدد کے خلاف کوئی سخت رویہ اختیار کیا جائے۔‘‘

کیا اصلاح کا امکان ہے؟

اسد بٹ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں پر محض دستخط کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ''اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان معاہدوں کی توثیق کی جائے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ اگر پاکستان ٹارچر کے خلاف تمام بین الاقوامی ضابطوں کی توثیق کرتا ہے اور اسے قانونی نظام کا حصہ بناتا ہے تو پھر کسی مثبت تبدیلی کا امکان ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان پر یہ لازم ہوجائے گا کہ وہ ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرائے اور ان کی پاسداری کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو یورپی یونین، جس نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا ہے یا اور مغربی ممالک جنہوں نے پاکستان کو مختلف حوالوں سے معاشی اور تجارتی رعایتیں دی ہیں، وہ یہ رعایتیں واپس لے لیں گے اور اس خوف سے حاکموں کو ایکشن لینا پڑے گا۔‘‘

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ قوانین پر عمل درآمد کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جو پولیس والے یا قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کے اغواء یا ٹارچر میں ملوث ہوں، انکو سخت سزائیں دی جائے ''کیونکہ جب تک سزا اور جزا کا قانون مکمل طور پر نافذ نہیں ہوگا اس وقت تک اختیار رکھنے والے لوگ اپنی اصلاح نہیں کریں گے۔‘‘

تشدد کے خاتمے کے لیے سرگرم ايک پاکستانی ٹرانس جینڈر

03:48

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں