پاکستان: 'دیت‘ کے نام پر قاتلوں کو کیسے معاف کر دیا جاتا ہے
15 ستمبر 2021
جنوری 2018ء میں میڈیکل اسٹوڈنٹ عاصمہ رانی چھٹی پر اپنے گھر کوہاٹ گئی ہوئی تھیں۔ ایک دن عاصمہ اور ان کی بھابی گھر واپس جا رہی تھیں کہ دو افراد نے ان پر فائرنگ کی ۔ عاصمہ کو تین گولیاں لگیں۔
اشتہار
مرنے سے قبل عاصمہ نے اپنے حملہ آور کا نام مجاہد اللہ آفریدی بتایا۔ یہ وہ شخص تھا جس کی شادی کی پیشکش عاصمہ نے ٹھکرا دی تھی۔ آفریدی کی تلاش شروع ہوئی لیکن وہ ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ کچھ ہی روز بعد اُسے متحدہ عرب امارات میں گرفتار کر لیا گیا اور اسے پاکستان بھیج دیا گیا جہاں اس کے خلاف کیس تین سال چلا۔ اس سال 2021ء میں عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ کہ آفریدی جلد رہا ہو جائے گا۔
حال ہی میں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ عاصمہ رانی کے خاندان نے لکی مروت کے علاقے میں ایک تقریب میں آفریدی کو ''معاف'' کر دیا ہے۔ اور ایک جرگے کے سامنے یہ معافی دی گئی۔ عاصمہ کے خاندانی وکیل سید عبدالفیض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عاصمہ کے قاتل کو معافی دے دی گئی ہے اور اس معافی نامے کو عاصمہ کے والدین نے عدالت میں جمع کر وا دیا ہے۔ وکیل کے مطابق اگر عدالت اس معافی نامے کو قبول کر لیتی ہے تو آفریدی کی رہائی ممکن ہو جائے گی۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن خاور ممتاز کا کہنا ہے کہ خواتین کے تشدد کے حوالے سے کیسز میں اکثر مجرمان رہا ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ ملک کے وہ قوانین ہیں جو معافی نامے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ قوانین اسلامی قانون '' قصاص'' سے متاثر ہیں۔ اس قانون کے تحت قاتل کو سزائے موت تو ہو سکتی ہیں لیکن ''دیت‘' کے ذریعے متاثرہ خاندان کو رقم ادا کر دی جاتی ہے اور ایسی صورت میں متاثرہ خاندان مجرم کو معاف کر سکتا ہے۔ اور پاکستانی عدالتیں اس معافی نامے کو قبول کر سکتی ہیں۔
خواتین کا عالمی دن: پاکستان میں اس مرتبہ پوسٹرز کیسے تھے؟
اس مرتبہ عورت مارچ کی مشروط اجازت دی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں نے بھی مظاہرے کیے۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں منعقد ہونے والے مظاہروں کی تصاویر۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی ریلی میں بھی ہزاروں افراد کی شرکت
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ میں اس مرتبہ کراچی میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے پوسٹرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر خواتین کے حقوق سے متعلق نعرے درج تھے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا، جس پر درج تھا: ’عورت کا جسم کارخانہ نہیں‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
’میرا جسم میری مرضی‘
اس نعرے کی تشریح اس مرتبہ بھی مختلف انداز میں کی گئی۔ کئی حلقوں نے اسے جسم فروشی کی ترویج قرار دیا، جب کہ حقوق نسواں کے علم برداروں کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں‘
مظاہرے میں مرد بھی شریک ہوئے۔ ایک مرد نے ایک پوسٹر پر لکھ رکھا تھا، ’شرم و حیا کپڑوں میں نہیں، سوچ میں‘ (ہے)۔
تصویر: DW/R. Saeed
’دونوں نے مل کر پکایا‘
ایک پوسٹر پر درج تھا ’چڑا لایا دال کا دانہ، چڑیا لائی چاول کا دانہ، دونوں نے مل کر پکایا، مل کر کھایا‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
سیاست دان بھی شریک
عورت مارچ میں وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
بزرگ خواتین نے بھی مارچ کیا
کراچی میں منعقد ہونے والے عورت مارچ میں معمر خواتین بھی شامل ہوئیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
’بے شرم کون؟‘
ایک خاتون نے ایک پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’دیکھتے ہو اسے بے شرمی سے تم، پھر کہتے ہو اسے بے شرم تم‘۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاپتا بلوچ خواتین کے حق میں پوسٹرز
عورت مارچ کے دوران ایسی بلوچ خواتین اور مردوں کے حق میں بھی پوسٹرز دیکھے گئے جو ’جبری طور پر گمشدہ‘ ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
لاہور: ’بچوں پر جنسی تشدد بند کرو‘
صوبائی دارالحکومت لاہور میں اس برس بھی عورت مارچ میں خواتین نے بھرپور شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور میں مرد بھی شانہ بشانہ
لاہور میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کی بڑی تعداد نے بھی عورت مارچ میں شرکت کی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مارچ زیادہ منظم
اس مرتبہ عورت مارچ کی مخالفت اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسے بہتر انداز میں منظم کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’ہمارے چینل ہماری مرضی‘
لاہور میں عورت مارچ کے دوران ایسے پوسٹر بھی دکھائی دیے جن پر پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر پر پابندی لگانے کے مطالبے درج تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی شو میں ماروی سرمد سے بدتمیزی کی تھی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’عورت اب آواز بھی ہے‘
پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر سے متعلق دیگر پوسٹرز پر بھی انہی کے متنازعہ جملوں کو لے کر طنز کیا گیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
’اس دور میں جینا لازم ہے‘
مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے اپنے چہرے پر آزادی تحریر کر رکھا تھا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مذہبی جماعتوں کی ’حیا واک‘
اسلام آباد میں عورت مارچ کے مد مقابل کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر مذہبی تنظیموں نے ’حیا واک‘ کا انعقاد کیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
’جسم کی حفاظت پردہ ہے‘
’حیا واک‘ میں جامعہ حفصہ کی طالبات بھی شریک ہوئیں، جنہوں نے عورت مارچ کے شرکاء ہی کی طرح مختلف پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
اسلام آباد کا عورت مارچ
پاکستانی دارالحکومت میں اس مرتبہ بھی عورت مارچ کے شرکاء نے دلچسپ پوسٹرز اٹھا رکھے تھے۔
تصویر: DW/A. Sattar
’عزت کے نام پر قتل نہ کرو‘
عورت مارچ میں شریک ایک خاتون کے ہاتھ میں ایک پوسٹر تھا، جس پر درج تھا: ’مجھے جینے کا حق چاہیے‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘
ایک نوجوان لڑکی نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر درج تھا، ’میں جنسی زیادتی کے متاثرین کے لیے مارچ کرتی ہوں‘۔
تصویر: DW/A. Sattar
سکیورٹی کے باوجود پتھراؤ
اسلام آباد انتظامیہ نے دونوں ریلیوں کے شرکاء کو الگ رکھنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے باوجود پتھراؤ کے واقعات پیش آئے، جس کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا گیا۔
تصویر: DW/A. Sattar
جماعت اسلامی کی تکریم نسواں واک
مذہبی سیاسی تنظیم جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر تکریم نسواں واک کا انعقاد کیا۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
’قوموں کی عزت ہم سے ہے‘
اسلام آباد میں تکریم نسواں واک میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ ایک پوسٹر پر درج تھا ’ہمارا دعویٰ ہے کہ خواتین کو حقوق صرف اسلام دیتا ہے‘۔
تصویر: AFP/A. Qureshi
23 تصاویر1 | 23
پاکستان کا قانونی نظام شریعہ سے متاثر ہے۔ قانون میں ایسی شقیں بھی ہیں جہاں رقم کی ادائیگی کے بغیر بھی معافی دی جاسکتی ہے۔ اکثر خاندان اللہ کے نام پر مجرموں کو معاف کر دیتے ہیں۔ عاصمہ رانی کے خاندان کے وکیل کے مطابق عاصمہ کے آبائی علاقے میں سزائے موت کے اکثر مقدمات میں معافی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان کے غیرت کے نام پر قتل کے 2016 ء کے بل کے تحت اسے دہشت گردی یا 'اونر کلنگ‘ کے کیسز کے مقدمات پر لاگو کرنا ممکن نہیں ہے۔ خاور ممتاز کے کہنا ہے کہ معاوضے کی ادائیگی کا اکثر غیر قانونی استعمال کیا جاتا ہے۔
خاور ممتاز کے مطابق اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ معافی دباؤ، زبردستی یا بلیک میل کے ذریعے دلوائی جاتی ہے۔ اور جب عدالت کی جانب سے سزا سنا بھی دی گئی ہو تب بھی متاثرہ خاندان پر معافی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔
عاصمہ رانی مستقبل کی ڈاکٹر ہوتی ایک نوجوان زندگی صرف اس لیے اس دنیا سے چلی گئی کیوں کہ اس نے ایک شخص کی شادی کی پیشکش ٹھکرائی تھی۔ ایسے بہت سے واقعات میں قاتل کو یہ اکثر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قانونی گرفت میں نہیں آئے گا اور اگر آ بھی گیا تو 'قصاص یا دیت' کہ باعث وہ سزا سے بچ جائے گا۔