1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک عدم اعتماد: عدالت کا فیصلہ کس کے حق میں ہو سکتا ہے؟

بینش جاوید
6 اپریل 2022

پاکستان کی سپریم کورٹ نے آج وزیر اعظم عمران خان کی قانونی ٹیم کے دلائل سنے جن کے ذریعے وہ عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی کے تحلیل کیے جانے اور نئے انتخابات کی کال کے فیصلے کا دفاع کر رہے تھے

تصویر: Waseem Khan/AP Photo/picture alliance

پاکستانی میں کئی قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ اتوار کو قومی اسمبلی کے نائب اسپیکر کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دینا قانونی طور پر غلط اقدام تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی جانب سے اسمبلیوں کے تحلیل کیے جانے اور نئے انتخابات کا اعلان کرنا بھی غیر آئینی اقدام تھا۔

حزب اختلاف نے اس معاملے کو پاکستان کی اعلیٰ عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ اس کیس کی سماعت اس ہفتے پیر سے شروع ہو گئی تھی۔

عدالت کیا فیصلہ سنا سکتی ہے؟ 

اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی پینل کر رہا ہے۔ عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ اس کیس کا فیصلہ کب سنایا جائے گا۔ عدالت اپنے فیصلے میں پارلیمان کو بحال کر سکتی ہے، نئے انتخابات کا اعلان کر سکتی ہے اور عمران خان کے اقدام کو غیر قانونی ٹہراتے ہوئے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔ عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ وہ پارلیمانی نظام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔

اسلام آباد سے صحافی نوشین یوسف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ پارلیمانی اجلاسوں کو قانونی طور پر استثنیٰ حاصل ہے وہ عدالتوں میں چیلنج نہیں ہو سکتیں۔ نوشین نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو عدالت میں چیلنج کیا ہوا تھا۔ وہ کیس عدالت میں نہیں چل سکا کیوں کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب پارلیمان میں کیا گیا تھا۔ تاہم نوشین کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایسی مثالیں ہیں جہاں  پارلیمانی فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ''جب اٹھارہویں آئینی ترمیم کی گئی تو اس میں ججز کی تقرری کے معاملے  پر عدلیہ کو اعتراضات تھے تو وہ معاملہ عدلیہ میں چیلنج ہوا اور اس کے بعد پھر ججز کی تقری کے حوالے سے پارلیمان کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ انیسویں آئینی ترمیم کرنا پڑی جس میں ججز کی تقرری کا طریقہء کار تبدیل ہوا۔‘‘

نوشین کہتی ہیں کہ اب عمران خان کا کیس ذرا مختلف صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ اسے آئین کی خلاف وزری کا کیس بنایا جا رہا ہے۔ نوشین کے مطابق آئین میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ اسپیکر صرف اس معاملے پر رولنگ دے سکتے ہیں جو آئینی طور پر مبہم ہو لیکن یہ معاملہ مبہم نہیں تھا۔ پاکستان میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو اس کا فیصلہ پارلیمان میں کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ واضح طور پر آزاد ہے، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ  پاکستان کی پوری تاریخ میں سابقہ ​​بنچوں کو سویلین اور ملٹری انتظامیہ نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔

اس حالیہ کیس میں کوئی بھی فیصلہ تمام فریقوں کو خوش نہیں کرے گا، لیکن پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے طور پر سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے کے خلاف کسی بھی ممکنہ اپیل کی سماعت کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ تاہم، اس کا امکان کم دکھائی دیتا ہے، اور ایک قطعی فیصلے سے ممکنہ طور پر جمود کی طرف ہی واپسی ہوگی اور سیاسی جھگڑوں کا ایک اور دور نظر آئے گا۔ قانون کے مطابق، اکتوبر 2023 سے پہلے الیکشن ہونا ضروری ہے۔

عمران خان کا سیاسی سفر، تحریک عدم اعتماد تک

04:08

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں