شہباز شریف کو توقع ہے کہ وہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستانی حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد کی کامیاب مہم چلائی اور عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
اشتہار
شہباز شریف ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ نواز شریف کو ان کے عہدے سے سن 2017ء میں ہٹا دیا گیا تھا اور بعد میں انہیں مالی بد عنوانی کے کیس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ دو سال تک ایک پاکستانی جیل میں رہنے کے بعد طبی علاج کرانے کے مقصد سے برطانیہ گئے تھے اور ابھی تک وہیں رہائش پذیر ہیں۔
تجربہ کار سیاست دان
پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو سیاست کا کافی تجربہ ہے۔ وہ کئی سال اقتصادی اور سیاسی طور پر طاقت ور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ نواز شریف کی نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان ملسم لیگ ن کے صدر بنے تھے۔
ستر سالہ شہباز شریف کو وراثت میں اپنے خاندان کی سٹیل مل ملی تھی اور پہلی مرتبہ 1988ء میں وہ صوبائی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انہوں نے کئی بڑے تعمیراتی منصوبے ممکمل کیے۔ لاہور میں پہلی میٹرو بس سروس بھی انہوں نے ہی متعارف کرائی تھی۔
لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں صحت، زرعی اصلاحات اور دیگر شعبوں میں بہتری کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے تھے۔
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
6 تصاویر1 | 6
مالی بد عنوانی کے الزامات
اپنے بڑے بھائی کی طرح شہباز شریف کو بھی مالی بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ دسمبر 2019 میں ملک کے قومی احتساب بیورو نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی قریب دو درجن املاک ضبط کر لی تھیں۔ ان پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ ستمبر 2020ء میں شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن چھ ماہ بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔ ان کے خلاف یہ مقدمہ اب بھی زیر سماعت ہے۔
پاکستانی فوج کے قریب
اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے برعکس، جن کے پاکستان کی طاقت ور فوج کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے، شہباز شریف کا رویہ قدرے لچک دار ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد کے سیاسی ایوانوں اور راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے درمیان تعاون کے حامی ہیں۔
اپنی کئی شادیوں کی وجہ سے اسکینڈلز اور مالی بدعنوانی کے الزامات کے باوجود شہباز شریف اس وقت پاکستان کے نامور ترین سیاست دان ہیں۔ اگر ملکی پارلیمان نے انہیں ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا، تو انہیں اس وقت سست روی کا شکار معیشت اور تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی پر تشدد کارروائیوں سے نمٹنے جیسے کئی مختلف چینلجز کا سامنا کرنا ہو گا۔