پاکستان: آزادی مارچ روکنے کی کوشش، حکومتی اقدامات پر تنقید
24 مئی 2022حکومت نے راولپنڈی سے جانے اور آنے والی ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا ہے جبکہ اسلام آباد میں بھی کئی بس ٹرمینلز کو بند کر دیا گیا ہے۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی لگائی گئی ہے اور دس ہزار سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ڈیوٹی پر بلا لیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں ریڈ زون کو سیل کر دیا گیا ہے اور پولیس کی بھاری نفری کو جڑواں شہروں میں مختلف مقامات پر متعین کر دیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے وفاقی حکومت کے اس اعلان کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے جبکہ سابق وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بھی کم و بیش انہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ملک کے کئی حلقوں میں جہاں پی ٹی آئی کے ممکنہ مارچ پر بحث ہو رہی ہے وہیں حکومت کے اس اقدام کے حوالے سے بھی تنقید ہورہی ہے، جس کے مطابق اس نے اس مارچ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ قانونی ماہرین کے مطابق حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی ہے جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ حکومت آئینی طور پر اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی جلسے جلوس کو روک سکے۔
عمران خان کا دعویٰ
عمران خان نے آج پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے دور حکومت میں حزب اختلاف کی طرف سے کئی مظاہرے اور احتجاج کیے گئے لیکن انہوں نے کبھی بھی چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے نہ ہی حزب اختلاف کے کارکنان کو گرفتار کروایا اور نہ ہی ان کے جلسے جلوسوں کو روکا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ ن سمیت کئی جماعتوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے اور جلسے جلوس کیے لیکن ان کی حکومت نے کبھی ان کو نہیں روکا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سابق آرمی افسران کے گھر پر بھی چھاپے مارے گئے اور اس دوران چادر اور چاردیواری کے تقدس کو بھی پامال کیا گیا۔
عمران خان کی وارننگ
عمران خان نے نوکر شاہی کو خبردار کیا کہ وہ حکومت کے غیر قانونی احکامات کو ماننے سے اجتناب کریں۔ انہوں نے سوال کیا کہ نوکر شاہی اور پولیس کس طرح حمزہ شہباز کے احکامات کو مان سکتی ہے، جن کی حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کے پولیس کے سربراہ کو ہدف تنقید بنایا اور ان پر الزام لگایا کہ ان کا ریکارڈ مجرمانہ ہے۔
عمران خان نے ایک بار پھر پاکستان کے طاقتور اداروں کا نام لیے بغیر کہا کہ حق اور سچ کی لڑائی میں غیرجانبداری نہیں ہونی چاہیے اور انہیں حق کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت فاشسٹ طریقے استعمال کر رہی ہے اور ان کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔
’حکومت کے پاس آئینی حق ہے‘
پی ٹی آئی وفاقی کابینہ کے اس فیصلے پر تنقید کر رہی ہے جس کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو آزادی مارچ نکالنے کی اجازت نہیں دے گی۔ لیکن ملک میں کئی قانون دان یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اس بات کا حق ہے کہ وہ اس طرح کے مارچ کو روک سکے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدرلطیف آفریدی ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس آزادی مارچ کی وجہ سے نہ صرف راولپنڈی اسلام آباد متاثر ہوں گے بلکہ پنجاب کے کئی علاقے اور ملک کے دوسرے علاقے بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ ملک میں امن و امان کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کسی پر حملہ ہو سکتا ہے۔ تو ایسے میں حکومت اس مارچ کو روک سکتی ہے۔‘‘
پاکستان میں انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری گرفتار
’غیر آئینی قدم ہے‘
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کا اقدام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جمہوری ممالک میں جلسے جلوس کرنا، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا اور اپنے حق کے لیے بات کرنا ایک عام سی بات ہے اور ہمارے آئین کے مطابق بھی یہ بنیادی حقوق میں سے ایک حق ہے۔ حکومت کسی طور بھی اس مارچ کو روک نہیں سکتی اور خدشات کی بنیاد پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ مارچ پرامن ہے تو حکومت کو کوئی آئینی حق نہیں ہے کہ وہ اس کو روکے۔‘‘
جسٹس وجیہہ کے مطابق وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اور عدالت اس کو غیر قانونی بھی قرار دے سکتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے قانون دان آفتاب باجوہ کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدام منفی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں حکومتی اقدام کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ اس مارچ میں آئیں گے اور حالات ایسی نہج پر جا سکتے ہیں کہ کوئی تیسری قوت فائدہ اٹھا لے۔ لہذا حکومت اور سیاسی جماعتوں دونوں کو ہوش سے کام لینا چاہیے۔‘‘