پیرس دہشت گردانہ حملے: ’میں داعش کا سپاہی ہوں،‘ ملزم کا بیان
8 ستمبر 2021
پیرس میں دو ہزار پندرہ کے دہشت گردانہ حملوں کے زندہ بچ جانے والے واحد حملہ آور صالح عبدالسلام نے آج بدھ آٹھ ستمبر کو دوران سماعت عدالت میں ایک بیان دیا۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ ’داعش کا ایک سپاہی‘ ہے۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں نومبر 2015ء میں بیک وقت کئی مقامات پر کیے گئے مربوط دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد مارے گئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔
پیرس سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق مراکشی نژاد فرانسیسی شہری صالح عبدالسلام نے اپنے 'داعش کا سپاہی‘ ہونے سے متعلق بیان تقریباﹰ چھ برس قبل 13 نومبر کے روز کیے گئے دہشت گردانہ حملوں سے متعلق مقدمے کی کارروائی کے آغاز پر دیا۔
انتہائی سخت حفاظتی انتظامات
پیرس کی ایک عدالت میں اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے تحت ہوا۔ ملزم صالح عبدالسلام کو جب عدالت میں لایا گیا، تو وہ سیاہ لباس پہنے ہوئے تھا اور اس کا چہرہ بھی ایک سیاہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا۔
اس مقدمے میں عدالتی کارروائی مجموعی طور پر 20 ایسے جہادیوں کے خلاف کی جا رہی ہے، جن پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان میں سے اس وقت 31 سالہ صالح عبدالسلام اس خونریزی کے مرتکب حملہ آوروں میں سے زندہ بچ جانے والا واحد ملزم سمجھا جاتا ہے۔
ڈیڑھ درجن سے زائد ان جہادیوں نے یہ حملے چھ شراب خانوں اور ریستورانوں، باٹاکلاں کنسرٹ ہال اور ایک سپورٹس اسٹیڈیم میں کیے تھے۔ یہ حملے اتنے ہلاکت خیز تھے کہ انہیں بہت سے ماہرین نے 'یورپ کا نائن الیون‘ قرار دیا تھا اور ان کی وجہ سے فرانس کی اپنے ہاں سلامتی انتظامات کے حوالے سے خود اعتمادی کو بھی شدید دھچکا لگا تھا۔
پیرس حملوں سے متعلق اس مقدمے کی سماعت شہر کے وسطی علاقے میں Palais de Justice یا قصرِ عدل نامی عدالت میں ہو رہی ہے، جس کے باہر ان حملوں میں زندہ بچ جانے والے بہت سے افراد کے علاوہ ہلاک شدگان کے بہت سے رشتے دار بھی جمع تھے۔
ان فرانسیسی شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ قصرِ عدل کے باہر اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ملزم صالح عبدالسلام کا عدالت میں دیا جانے والا بیان سن سکیں اور یہ بات بہتر طور پر سمجھ سکیں کہ جو کچھ بھی ہوا، وہ کیوں ہوا؟
غیر معمولی عدالتی کارروائی
یہ عدالتی کارروائی تقریباﹰ نو ماہ تک جاری رہے گی، جس میں تقریباﹰ 1800 مدعیان کی طرف سے 300 سے زائد وکلاء حصہ لیں گے۔ ملکی وزیر انصاف ایرک دُوپاں موریتی نے اسے فرانسیسی تاریخ کی 'بے نظیر عدالتی میراتھن‘ قرار دیا ہے۔
پیرس میں دہشت گردی کی رات
پیرس میں دہشت گردی کی سلسلہ وار کارروائیوں کے نتیجے میں سو سے زائد افراد ہلاک اور دو سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی رہنماؤں نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے پیرس کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
منظم حملے
پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ان منظم سلسلہ وار حملوں میں پیرس میں اور اس کے گرد و نواح میں سات مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد دو سو ہے، جن میں سو کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
خوف و ہراس
پیرس کے باتاکلاں تھیئٹر میں مسلح افراد نے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جہاں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے اس تھیئٹر کو بازیاب کرا کے زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Valat
خون ریزی اور بربریت
سکیورٹی فورسز نے باتاکلاں تھیئٹر کا محاصرہ کرتے ہوئے جمعے کی رات مقامی وقت کے مطابق ایک بجے اسے مسلح افراد کے قبضے سے آزاد کرایا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے اپنی پرتشدد کارروائیوں کے دوران ’اللہ اکبر‘ کے نعرے بلند کیے۔
تصویر: Reuters/C. Hartmann
فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب دھماکے
پیرس کے شمال میں واقع نیشنل فٹ بال اسٹیڈیم کے قریب ہونے والے تین دھماکوں میں کم ازکم پانچ افراد مارے گئے۔ جمعے کی رات جب یہ حملے کیے گئے، اس وقت جرمن قومی فٹ بال ٹیم فرانسیسی ٹیم کے خلاف ایک دوستانہ میچ کھیل رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Ena
فرانسیسی صدر اولانڈ سکتے کے عالم میں
جب ان حملوں کی خبر عام ہوئی تو فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ فٹ بال اسٹیڈیم میں جرمنی اور فرانس کے مابین کھیلے جانا والا میچ دیکھ رہے تھے۔ بعد ازاں اولانڈ نے ان سلسلہ وار حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے ایک مختصر نشریاتی پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Marchi
سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی
ان حملوں کے فوری بعد پیرس میں سکیورٹی انتہائی الرٹ کر دی گئی۔ پندرہ سو اضافی فوجی بھی پولیس کی مدد کے لیے تعینات کیے جا چکے ہیں۔ حکام نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تمام افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Tribouillard
فرانسیسی شہری سوگوار
ان حملوں کے بعد فرانس سوگ کے عالم میں ہے۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان پُر تشدد واقعات کے اختتام تک کم از کم 8 حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Ph. Wojazer
عالمی برادری کی طرف سے اظہار افسوس
عالمی رہنماؤں نے پیرس حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان حملوں کو دہشت گردی کی سفاک کارروائی قرار دیا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
امدادی کارروائیاں اور بے چینی
فرانسیسی میڈیا کے مطابق ان حملوں کے بعد پیرس میں سکیورٹی اہل کار اور امدادی ٹیمیں فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئیں۔ سکیورٹی اہل کاروں نے جمعے کی رات خوف و ہراس کے شکار لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے میں مدد بھی کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
امریکی صدر اوباما کا پیغام
پیرس حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ یہ حملے پیرس یا فرانس پر نہیں ہوئے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف حملے ہیں۔ انہوں نے پیرس حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مشکل وقت میں واشنگٹن اس کے ساتھ ہے۔
تصویر: Reuters/Ch. Platiau
میرکل کا اظہار یک جہتی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ وہ پیرس میں ہوئے ان حملوں کے نتیجے میں شدید دھچکے کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ برلن حکومت پیرس کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
اس مقدمے میں جن 20 ملزمان کو اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنا ہے، ان میں سے 11 پہلے ہی جیل میں ہیں اور اپنے خلاف کارروائی کے منتظر تھے۔ چھ نامزد ملزمان کے خلاف یہ عدالتی کارروائی ان کی غیر حاضری میں مکمل کی جائے گی۔ ان میں سے زیادہ تر مارے گئے تھے۔
اشتہار
ممکنہ سزائیں
مقدمے کے اکثر ملزمان کو ان کے جرائم ثابت ہو جانے پر عمر قید کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں۔ باقی ماندہ ملزمان کے خلاف الزامات یہ ہیں کہ انہوں نے حملہ آوروں کو ہتھیار یا گاڑیاں مہیا کیں یا پھر ان حملوں کے لیے دیگر تیاریوں میں مدد کی۔
چھ سال پہلے پیرس کے ان دہشت گردانہ حملوں کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی تھی۔ تب یہ تنظیم شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض تھی اور وہاں اس کے خلاف کارروائیوں میں دیگر مغربی ممالک کی طرح فرانس بھی شامل تھا۔ اس پر داعش نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ فرانس پر مسلح حملے کریں۔
یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کا تسلسل
گزشتہ برسوں کے دوران مختلف یورپی شہروں کو دہشت گردانہ واقعات کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی واقعات میں مسلم انتہا پسند ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Ramos
اگست سن 2017،بارسلونا
ہسپانوی شہر بارسلونا کے علاقےلاس رامباس میں کیے گئے حملے میں کم از کم تیرہ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس واقعے میں دہشت گرد نے اپنی وین کو پیدل چلنے والوں پر چڑھا دیا تھا۔
تصویر: Imago/E-Press Photo.com
مارچ اور جون سن 2017، لندن
برطانیہ کے دارالحکومت میں دو جون کو تین افراد نے ایک کار لندن پل پر پیدل چلنے والوں پر چڑھا دی بعد میں کار چلانے والوں نے چاقو سے حملے بھی کیے۔ لندن پولیس نے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے سے قبل ایسے ہی ایک حملے میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ جون ہی میں ایک مسجد پر کیے گئے حملے میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
مئی سن 2017، مانچسٹر
برطانوی شہر مانچسٹر میں امریکی گلوکارہ آریانے گرانڈے کے کنسرٹ کے دوران کیے گئے خود کش بمبار کے حملے میں کم از کم 22 انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/R. Boyce
اپریل سن 2017، اسٹاک ہولم
سویڈن کے دارالحکومت ایک ٹرک پیدل چلنے والوں پر چڑھانے کے واقعے میں پانچ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک 39 برس کے ازبک باشندے کو حراست میں لیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ringstrom
فروری، مارچ، اپریل سن 2017، پیرس
رواں برس کے ان مہینوں میں فرانسیسی دارالحکومت میں مختلف دہشت گردانہ حملوں کی کوشش کی گئی۔ کوئی بہت بڑا جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک واقعے میں ایک پولیس افسر مارا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Paris
دسمبر سن 2016، برلن
جرمنی کے دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر کیے گئے حملے میں ایک درجن افراد موت کا نوالہ بن گئے تھے۔ حملہ آور تیونس کا باشندہ تھا اور اُس کو اطالوی شہر میلان کے نواح میں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/S. Loos
جولائی سن 2016، نیس
فرانس کے ساحلی شہر نیس میں پیدل چلنے والوں کے پرہجوم راستے پر ایک دہشت گرد نے ٹرک کو چڑھا دیا۔ اس ہولناک حملے میں 86 افراد مارے گئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Reuters/E. Gaillard
مارچ سن 2016، برسلز
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے میٹرو ریلوے اسٹیشن پر کیے گئے خودکش حملوں میں کم از کم 32 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
جنوری سن 2016، استنبول
ترکی کے تاریخی شہر استنبول کے نائٹ کلب پر کیے گئے حملے میں 35 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ ان ہلاک شدگان میں بارہ جرمن شہری تھے۔ حملہ آور کا تعلق اسلامک اسٹیٹ سے بتایا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma Press/Depo Photos
نومبر سن 2015، پیرس
پیرس میں کیے منظم دہشت گردانہ حملوں میں 130 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ ان حملوں کے دوران ایک میوزک کنسرٹ اور مختلف ریسٹورانٹوں پر حملے کیے گئے تھے۔ حملہ آور جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامی تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Guay
فروری سن 2015، کوپن ہیگن
ڈنمارک کے دارالحکومت میں واقع ایک کیفے پر ایک نوجوان کی فائرنگ سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی۔ اسی حملہ آور نے بعد میں ایک یہودی عبادت گاہ کے محافظ کو بھی ہلاک کیا تھا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
جنوری سن 2015، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں ایک میگزین کے دفتر اور یہودیوں کی اشیائے ضرورت کی مارکیٹ پر کیے گئے حملوں میں 17 افراد مارے گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Feferberg
مئی سن 2014، برسلز
فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان حملہ آور نے بیلجیم کے یہودی میوزیم پر فائرنگ کر کے چار افراد کو موت کی گھاٹ اتار دیا۔ حملہ آور ایک خود ساختہ جہادی تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/G. Gobet
جولائی سن 2005، لندن
چار برطانوی مسلمانوں نے لندن میں زیر زمین چلنے والے ٹرام کو مختلف مقامات پر نشانہ بنایا۔ ان بم حملوں میں 56 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔
تصویر: dpa
مارچ سن 2004، میڈرڈ
منظم بم حملوں سے ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ کے ریلوے اسٹیشن پر 191 انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ ان بموں کے پھٹنے سے پندرہ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
تصویر: AP
15 تصاویر1 | 15
عدالتی فیصلہ اگلے برس مئی میں متوقع
اس مقدمے میں عدالتی فیصلہ اگلے برس مئی کے اواخر میں متوقع ہے۔ سماعت کے لیے کمرہ عدالت میں خاص طور پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ کارروائی کے دوران عدالت میں موجود ملزمان کو شیشے کی ایک موٹی بلٹ پروف دیوار کے پیچھے بٹھایا گیا۔
عدالتی کارروائی میں حصہ لینے والے وکلاء اور دیگر افراد کی کئی مراحل میں سخت سکیورٹی چیکنگ کا بھی انتظام کیا گیا ہے، جس کے لیے خاص طور پر ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار متعین کیے گئے ہیں۔
اس سسلے میں فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ دارمانیں نے فرانس انٹر نامی نشریاتی ادارے کو بتایا، ''فرانس میں دہشت گردی کا خطرہ کافی زیادہ ہے، خاص طور پر ایسے ٹرائلز کے موقع پر۔‘‘
م م / ع ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
فرانس، انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین میں نیا کیا ہے؟
فرانس سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے بھی کئی شقیں شامل ہیں۔ آخر ان ضوابط میں ہے کیا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے اہم حصوں پر۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
نقل وحرکت پر پابندیاں
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
گھروں کی تلاشی
نئے قوانین کے تحت متعلقہ حکام انسداد دہشت گردی کی خاطر کسی بھی مشتبہ شخص کے گھر کی تلاشی لینے کے مجاز ہوں گے۔ عام ہنگامی صورتحال کے دوران پولیس کو ایسے چھاپوں کی خاطر عدالت سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Edme
اہم مقامات پر مشتبہ افراد کی تلاشی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسزکو اجازت ہوگی کہ وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کے دس کلو میٹر کے رداس میں موجود لوگوں سے شناختی دستاویزات طلب کر سکیں۔ اس اقدام کا مقصد سرحد پار جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq
عبادت گاہوں کی بندش
اس قانون کے تحت ریاست کو اجازت ہو گی کہ وہ کسی بھی ایسی عبادت گاہ کو بند کر دے، جہاں انتہا پسندانہ نظریات یا پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ ان عبادت گاہوں میں نفرت انگیزی اور امتیازی سلوک کی ترویج کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی تشدد پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کی معاونت کے شبے میں عبادت گاہوں کو بند بھی کیا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
ایونٹس کے دوران سخت سکیورٹی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ایسے مقامات کے گرد و نواح میں واقع عمارات کی چیکنگ کی خاطر وہاں چھاپے مار سکیں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر سکیں، جہاں نزدیک ہی کوئی عوامی ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہو گا۔ اس کا مقصد زیادہ رش والے مقامات پر ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کو ممکن بنانا ہے۔