افغانستان کی مالی مدد: چین، پاکستان اور قطر سب سے آگے
13 ستمبر 2021
مغربی ممالک جہاں طالبان حکومت کو مالی امداد دینے کے بارے میں اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکے، وہیں افغانستان کے پڑوسی ممالک چین اور پاکستان نے افغانستان کی مالی امداد کرنا شروع کر دی ہے جبکہ روس بھی جلد ہی ایسا کرے گا۔
اشتہار
پیر کو جینیوا میں دنیا کی اہم طاقتیں اس بات پر بحث کریں گی کہ افغانستان، جہاں طالبان کی حکومت ہے، وہاں انسانی بنیادوں پر امداد کیسے پہنچائی جائے؟ جنگ زدہ ملک افغانستان کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہے، خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور کئی لاکھ افراد شدید غربت کا شکار ہیں۔ لیکن امریکا اور مغربی ممالک طالبان کو تب تک امداد نہیں دینا چاہتے، جب تک کہ وہ انسانی حقوق اور خاص کر خواتین کے حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی نہیں کراتے۔
افغانستان کے دس ارب ڈالر کے غیر ملکی اثاثے بھی بیرون ملک منجمد ہیں۔ اقوام متحدہ کی سکریٹری جنرل کی نمائندہ برائے افغانستان ڈوبورا لینز نے گزشتہ ہفتے سکیورٹی کونسل کو بتایا،''مقصد طالبان حکومت کو پیسہ نہ دینا ہے لیکن اس کا اثر یہ ہو گا کہ اس ملک کی مالی حالت مزید ابتر ہو جائے گی اور کئی لاکھ افراد غربت اور بھوک کا شکار ہو جائیں گے اور افغانستان سے مہاجرین کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملے گی، افغانستان کئی عشرے پیچھے جا سکتا ہے۔‘‘
افغان عوام کی مدد نہ کرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چین اور پاکستان افغانستان کے مزید قریب آ سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے امداد سے بھرے کئی جہاز افغانستان پہنچ چکے ہیں۔ دونوں پڑوسی ممالک نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
افغان طالبان: عروج، زوال اور پھر عروج تک پہنچنے کی کہانی
امريکا ميں 2001ء کے حملوں کے بعد افغانستان ميں طالبان اور القاعدہ کے خلاف شروع ہونے والی جنگ مطلوبہ نتائج برآمد نہ کر سکی اور آج طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہيں۔
تصویر: Imago Images/Russian Look
سوويت افغان جنگ اور مجاہدين
افغانستان ميں سابق سوويت يونين کی افواج اور مجاہدين کے مابين سن 1979 سے لے کر سن 1989 تک جنگ جاری ہے۔ سرد جنگ کے دور ميں سوويت افواج کو شکست دينے کے ليے امريکا، برطانيہ، پاکستان، ايران، سعودی عرب، چين اور ديگر کئی ملکوں نے مجاہدين کی مدد کی۔ 1989ء ميں سوويت افواج کی واپسی کے بعد بھی مجاہدين نے صدر نجيب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے ليے مسلح کارروائياں جاری رکھيں۔
تصویر: AP
نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ اور طالبان کی پيش قدمی
سن 1992 ميں نجيب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تاہم افغانستان ميں خونريز خانہ جنگی جاری رہی۔ سوويت افغان جنگ کی خاک سے ابھرنے والا گروہ طالبان 1996ء ميں کابل پر قابض ہو چکا تھا۔ طالبان نے ملک ميں سخت اسلامی قوانين نافذ کر ديے۔ سن 1997 ميں سعودی عرب اور پاکستان نے کابل ميں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسليم کر ليا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Vyacheslav
القاعدہ اور طالبان ’دہشت گرد‘ قرار
سن 1999 ميں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 1267 منظور کی، جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد گروہ قرار دے ديا گيا اور ان پر پابنديوں کے ليے ايک کميٹی تشکيل دی گئی۔ طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ گاہيں فراہم کيں، جو افغانستان اور پاکستان سے اپنے گروپ کی قيادت کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Khan
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کے حملے
امريکا ميں گيارہ ستمبر سن 2001 کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اٹھارہ ستمبر کو اس وقت امريکی صدر جارج ڈبليو بش نے ايک قرارداد منظور کرتے ہوئے افغانستان ميں طاقت کے استعمال کی اجازت دے دی۔ اسی سال سات اکتوبر کو برطانوی تعاون سے امريکی جنگی طياروں نے شمالی اتحاد، پشتونوں اور طالبان مخالفت گروپوں کی مدد سے افغانستان پر بمباری شروع کی۔
تصویر: AP
طالبان کی حکومت کا خاتمہ
نومبر سن 2001 ميں طالبان شکست سے دوچار ہو گئے۔ اس کے ایک ماہ بعد پانچ دسمبر کو جرمن شہر بون ميں ايک تاريخی کانفرنس منعقد ہوئی، جس ميں افغانستان ميں عبوری حکومت کے قيام کے ليے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی گئی، جس کی بعد ازاں اقوام متحدہ نے قرارداد 1383 منظور کرتے ہوئے توثيق کر دی۔ بيس دسمبر کو افغانستان ميں اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعيناتی کے ليے سلامتی کونسل ميں قرارداد 1386 منظور کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ايک طويل جنگ کا آغاز
افغانستان ميں باقاعدہ طور پر بری فوج کی کارروائی مارچ سن 2002 ميں شروع کی گئی۔ ’آپريشن ايناکونڈا‘ ميں دو ہزار امريکی اور ايک ہزار افغان دستوں نے حصہ ليا۔ اس وقت اندازہ لگايا گيا تھا کہ القاعدہ کے شدت پسندوں کی تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ دريں اثناء پينٹاگون نے عراق پر بھی توجہ دينی شروع کر دی، جس کے بارے ميں خيال تھا کہ امريکی قيادت ميں جاری ’وار آن ٹيرر‘ کا نيا گڑھ عراق بنتا جا رہا ہے۔
تصویر: Vasily Fedosenko/REUTERS
تيس برس بعد انتخابات، جمہوريت کے آثار
سن 2004 ميں افغانستان جمہوريت کی طرف بڑھا۔ نيا آئين منظور ہوا اور صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ حامد کرزئی فاتح قرار پائے اور صدر بن گئے۔ اگلے سال افغانستان ميں تيس برس بعد پارليمانی انتخابات کا انعقاد ہوا۔
تصویر: AP
افغان مشن ميں توسيع
پھر سن 2009 ميں اس وقت امريکی صدر باراک اوباما نے افغان مشن کو وسعت دی۔ ملک ميں تعينات امريکی دستوں کی تعداد ايک لاکھ تھی۔ ساتھ ہی طالبان نے بھی جنگی سرگرمياں جاری رکھی ہوئی تھيں۔
تصویر: Kevin Lamarque/Reuters
دوحہ ميں غير رسمی ملاقات
افغانستان میں قیام امن کی خاطر مئی 2015ء ميں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندگان نے دوحہ ميں غير رسمی ملاقات کی۔ بعد ازاں امريکا اور طالبان کے مابين فروری سن 2020 ميں ڈيل طے ہو گئی۔ ڈيل کی شرائط کے مطابق اسی سال ستمبر تک کابل حکومت اور طالبان کے مابين مذاکراتی عمل بھی شروع ہو گيا۔
تصویر: Nikku/dpa/Xinhua/picture alliance
امريکا اور طالبان کی ڈيل اور آنے والا دور
اس ڈيل کی شرائط ميں افغانستان سے تمام غير ملکی افواج کا انخلاء شامل تھا۔ پھر امريکی صدر جو بائيڈن نے رواں سال اپريل ميں فيصلہ کيا کہ ستمبر تک تمام امريکی دستے افغانستان چھوڑ ديں گے۔ اسی دوران نيٹو نے بھی اپنی افواج واپس بلا ليں۔ انخلاء کا عمل جولائی اگست تک اپنے آخری مراحل ميں داخل ہو چکا تھا اور اسی وقت طالبان ملک کے کئی حصوں پر قابض ہوتے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Sayed
10 تصاویر1 | 10
چین نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان میں اکتیس ملین ڈالر مالیت کی خوراک اور طبی سازوسامان بھیج رہا ہے۔ یہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کسی بھی ملک کی جانب سے امداد کا پہلا اعلان تھا۔ پاکستان نے بھی گزشتہ ہفتے کھانے کے تیل جیسی اشیاء اور طبی سازو سامان کابل پہنچایا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں بغیر شرائط کے مدد فراہم کی جائے اور ان کے منجمد اثاثوں کو بحال کر دیا جائے۔ قطر نے بھی طالبان کی نئی حکومت کو امدادی سامان فراہم کیا ہے جبکہ روس نے بھی ایسا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اشتہار
معدنیات اور عسکریت پسندی
پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے اور ان کے ساتھ قریبی روابط رکھنے کے الزامات کا سامنا رہا ہے۔ اسلام آباد ان الزمات کی تردید کرتا ہے۔ دوسری جانب چین جو کہ پاکستان کا اہم اتحادی ملک ہے، وہ بھی اب طالبان کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی نظر افغانستان کی معدنیات پر ہے اور خاص کر لیتھیم کے ذخائر پر، جو کہ کئی الیکٹرانک مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ چین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں اس ملک سے عسکریت پسند سرحد پار چین نہ پہنچ جائیں۔ چین طالبان کے ذریعے اپنی سرحد کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔
طالبان اور چین تعلقات
طالبان رہنماؤں کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں میں ایسے بیانات سامنے آئے ہیں، جن میں انہوں نے چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایک سینئر طالبان رہنما نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے افغانستان میں سرمایہ کاری سے متعلق دوحہ میں مذاکرات ہوئے ہیں۔ چین اور پاکستان کے دو ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ چین افغانستان کو پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) میں شامل ہونے کے لیے کہہ رہا ہے۔ سینٹر فار چائنہ ادارے کے سربراہ وینگ ہیویاؤ کا کہنا ہے، ''افغانستان میں امن اور استحکام چین کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس ملک کے ذریعے چین وسطی ایشیا تک پہنچ سکتا ہے۔ تو یہ سب خطے کے امن اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔‘‘