1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

دنیا کو طویل جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے، فرانسیسی صدر

26 فروری 2022

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے ہفتے کے روز خبردار کیا کہ ماسکو کی جانب سے اپنے مغرب نواز پڑوسی پر حملے کے بعد دنیا کو روس اور یوکرائن کے درمیان طویل جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

تصویر: Emilio Morenatti/AP Photo/picture alliance

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے ہفتے کے روز فرانس میں ایک سالانہ زرعی میلے سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "میں آپ کو ایک بات بتا سکتا ہوں کہ یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ یہ بحران جاری رہے گا، یہ جنگ جاری رہے گی اور اس کے ساتھ آنے والے تمام بحرانوں کے دیرپا نتائج ہوں گے۔ ہمیں تیار رہنا چاہیے۔"

ماکروں نے زرعی میلے کا اپنا دورہ مختصر کر دیا، جو عام طور پر فرانسیسی سیاسی کیلنڈر میں کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، تاکہ روسی حملے سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے وہ واپس اپنے دفتر جا سکیں۔

ماکروں کا کہنا تھا ،''یورپ میں جنگ لوٹ آئی ہے، یہ فیصلہ  صدر ولادیمیر پوٹن نے یکطرفہ طور پر کیا تھا، ایک المناک انسانی صورتحال کے ساتھ، یوکرائنی لوگ اس جنگ کی مزاحمت کر رہے ہیں اور یورپ یوکرائنی عوام کے شانہ بشانہ اس جنگ کی مزاحمت کر رہا ہے۔‘‘

روس کی یوکرائن سے دوستی، دشمنی میں کیوں بدلی؟

03:07

This browser does not support the video element.

فرانس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جارجیا اور مالدووا کے صدور کو کال کرتے ہوئے، ماکروں نے یورپی یونین کے مشرق میں اپنے شراکت داروں کی حمایت کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ''ہم مالدووا اور جارجیا کے ساتھ کھڑے ہیں تاکہ ان کی خودمختاری اور ان کی سلامتی کا دفاع کریں۔‘‘

فرانس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یوکرائن پر روسی حملہ ان سابق سوویت ممالک تک پھیل سکتا ہے جو ماسکو نواز علیحدگی پسندوں کے گڑھ ہیں۔

روس کے خلاف جنگ اور پابندیوں سے فرانس کے مخصوص شعبوں، خاص طور پر شراب کی صنعت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

فرانسیسی رہنما روس اور یوکرائن کے درمیان بحران کو ٹالنے کی کوششوں میں ایک اہم شخصیت تھے. حالیہ کچھ عرصے میں ماکروں مسلسل صدر پوٹن سے بات چیت میں مصروف رہے۔ ماکرو‌ں روسی رہنما اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ایک سربراہی ملاقات کے لیے ثالثی کرنے کی کوشش بھی کر رہے تھے۔

ب ج، ع ت (اے ایف پی)

روسی عوام بھی روسی جنگ کے خلاف

01:55

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں