1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسری لنکا

سری لنکا، کسان بھی اب حکومت مخالف

3 مئی 2022

سری لنکا میں کسانوں کی جانب سے بڑی مقدار میں استعال ہونے والی کھاد کی درآمد پر پابندی نے صرف کسانوں کی فصلوں کو متاثرنہیں کیا بلکہ ان کی راجاپاکسے خاندان کی حمایت کو بھی کم کردیا ہے۔

تصویر: AFP

گزشتہ سال صدر گوتابایا راجاپاکسے کی حکومت نے زرعی کیمیائی مواد کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی تاکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو بچایا جا سکے اور قرضے کی ادائیگیاں کی جاسکیں۔ اس وقت راجاپاکسے کی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس اقدام کا مقصد سری لنکا کو کیمیائی فارمنگ سے دور کرنا اور قدرتی اور دیسی طریقے سے کاشت کاری کرنے والا ملک بنانا ہے۔

تباہ کن فیصلہ

یہ فیصلہ کسانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔ فصلوں کی پیداوار گر گئی اور ان کسانوں کی آمدن ایک ایسے وقت میں کم ہو گئی جب پہلے ہی تیل، خوراک اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ چاول کاشت کرنے والے کسانوں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ ایس جالیاگودا کا کہنا ہے، '' یہ تباہی ان لوگوں کی وجہ سے آئی ہے جو اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں اور جن کو کاشت کاری کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔‘‘ جالیاگودا کے مطابق حکومت کے اس فیصلے کو کسانوں کی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن مخالفت کے باوجود حکومت نے زبردستی یہ فیصلہ کسانوں پر تھونپا۔

سری لنکا کی معیشت کا انحصار زراعت پر

سری لنکا کی بائیس ملین آبادی میں سے قریب ایک چوتھائی کا انحصار زراعت پر ہے۔ ماضی میں اس جزیرہ ملک کی زراعت خاص طور پر یہاں کی مقبول سیلون چائے کی کامیابی کے اعتراف سے کیا جاتا تھا۔ صرف سیلون چائے کی کاشت سے اس ملک کو سالانہ قریب 1.3 ارب ڈالر حاصل ہوتے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی کیمیائی مواد کی درآمد پر پابندی کسانوں کو خبردار کیے بنا عائد کر دی گئی تھی اور اس پابندی سے قبل کسانوں کو نئے طریقے کار سے کاشت کرنے کی تربیت نہیں دی گئی تھی۔

سری لنکا: مظاہرین پر فائرنگ میں ایک ہلاک متعدد زخمی

سری لنکا افراطِ زر کی تباہ کن صورت حال کا شکار

ایم ایم جینا سینا نے زندگی بھر کاشت کاری کی ہے اور وہ ہمیشہ اپنے خاندان کو خوراک فراہم کر پائے لیکن اب 55 سالہ کسان کے خاندان کو اپنی خوراک کے استعمال کو کم کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''جب ہم کیمیائی کھاد استعمال کرتے تھے تو ہمیں ایک ایکڑ پر قریب تین ہزار کلو کی پیداوار حاصل ہوتی تھی لیکن جب سے ہم نے دیسی طریقے سے کاشت کاری شروع کی ہے تو ہماری پیداوار میں نصف فیصد کمی آگئی ہے۔‘‘

کھاد پر عائد پابندی کا فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا

سن 2021ء کے آخر میں راجاپاکسے کی حکومت نے درآمد شدہ کھاد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ راجا پاکسے نے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ لیکن اب یہ کیمیائی کھاد بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ ایک کسان جنہوں نے اب کھیتی باڑی کا کام چھوڑ کر مزدوری شروع کر دی ہے کا کہنا ہے کہ اب کھاد، تیل اور کیڑے مار ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں اور جو دستیاب ہیں وہ بہت مہنگی ہیں۔

حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ وہ کسانوں کو سبسیڈیز دے گی لیکن بہت کم لوگوں کو امید ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف ملے گا۔

اب دیگر شہریوں کی طرح سری لنکا کے کسان بھی راجاپاکسے کے استعفے کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

ب ج، ع ح (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں